ad 1

Wednesday, June 21, 2017

قائداعظم کی آخری سانسیں۔


 
قائداعظم کی آخری سانسیں۔
 
 اگست کے اواخر میں قائد اعظم پر اچانک مایوسی کا غلبہ ہو گیا ایک دن میری آنکھوں میں غور سے دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا "فاطی اب مجھے زندہ رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔ ۔جتنی جلد چلا جاوٍں۔۔۔ ۔ اتنا ہی بہتر ہے " یہ نہائت مایوس کن اور منحوس الفاظ تھے ،میں دھک سے رہ گئی، یوں جیسے میں نے بجلی کا ننگا تار پکڑ لیا ہو پھر بھی میں نے صبر و ضبط سے کام لیا اور کہا "جن ، تم بہت جلد ٹھیک ہو جاوگے۔ڈاکٹروں کو پوری امید ہے "میری بات سن کر وہ مسکرائے اس مسکراہٹ میں مردنی چھپی تھی انہوں نے کہا "نہیں ۔۔۔ اب میں زندہ رہنا نہیں چاہتا "یکم ستمبر کو ڈاکٹر الہی بخش نے گھمبیر لہجے میں مجھے بتایا"قائد اعظم کو ہیمریج ہو گیا ہے ۔میں بہت پریشان ہوں ہمیں انہیں کراچی لے جانا چاہئیےکوئٹہ کی بلند ی ان کے لیے اچھی نہیں ہے "غرض قائد کی صحت بگڑتی چلی گئی ۵ ستمبر کو ان کے بلغم کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایاکہ بلغم میں نمونیہ کے جراثیم موجود ہیں ان کے خون میں انفکشن کی علامات بھی پائی گئیں ۔ان کو سانس لینے میں تکلیف محسوس ہو رہی تھی ۔ ۷ ستمبر کو میں نے مسٹر اصفہانی کو واشنگٹن فون کیا کہ وہ امریکن ماہرین کو بذریعہ طیارہ بھیج دیں ان ماہرین کے نام ڈاکٹر ریاض نے تجویز کیے تھے ۔ اگلے روز میں نے کراچی کے ڈاکٹر مستری کو فون کیا کہ وہ فورا ً کوئٹہ پہنچیں ادھر ڈاکٹروں کے درمیاں ایک اور کانفرنس ہوئی انہوں نے صورتحال کے تمام پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ اب قائد کو فورا کراچی منتقل کرنا بہت ضرورری ہے کیونکہ کوئٹہ کی بلندی ان کے کمزور دل کے لیے مناسب نہ تھی ڈاکٹروں نے بڑے بھاری دل کے ساتھ مجھے اطلاع دی کہ اب کوئی امید باقی نہیں اور صرف کوئی معجزہ ہی انہیں بچا سکتا ہے جب میں نے اپنے بھائی کو ڈاکٹروں کے اس مشورے سے آگاہ کیا۔کہ انہیں کراچی لے جایا جائے تا کہ وہ کوئٹہ کی بلندی سے دور رہ سکیں تو انہوں نے کہا " ہاں ۔۔۔ مجھے کراچی لے چلو ۔۔۔ میں وہیں پیدا ہوا ۔۔ ۔میں وہیں دفن ہونا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ " ان کی آنکھیں بند ہوگئیں اور میں ان کے قریب پٹی سے لگی بیٹھی رہی وہ بے ہوش تھے اور اس بے ہوشی کے عالم میں بھی ان کے خوابوں کی باز گشت سنتی رہی وہ بڑ بڑارہے تھے " کشمیر ۔۔۔ ۔۔انہیں ۔۔۔ فیصلہ کرنے کا ۔ ۔ ۔ حق ۔ ۔ ۔دو۔ ۔ ۔آئین ۔ ۔ ۔ میں اسے مکمل کروں گا ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جلد ۔ ۔ ۔ مہاجرین ان کی ہر طرح ۔ ۔ ۔ مدد کرو ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ "گورنر جنرل کے وائی کنگ طیارے کو فوری طور پر کوئٹہ پرواز کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا اور ڈاکٹروں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ۱۱ ستمبر کو بعد دوپہر دو بجے کراچی واپس جانے کے لیے ہم ائر پورٹ پر ہونگے ۔جب انہیں سٹریچر پر ڈال کر وائی کنگ کے کیبن میں لے جایا جارہا تھاتو طیارے کا کیبن اور عملہ انہیں سلامی دینے کے لیے ایک قطار میں کھڑے تھے قائد نے بمشکل تمام اپنا کمزور ہاتھ اٹھا کر ان کے سلام کا جواب دیا { قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ پاک فضائیہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ قائد کو پاکستان کی سرزمین پر پہلا سیلوٹ ۱۴ اگست کو ماڑی پور ائر پورٹ پر اور زندگی کا آخری سیلوٹ کوئٹہ کے ہوائی اڈہ پر پاک فضائیہ ہی نے کیا تھا}ہم نے ان کو احترام کے ساتھ ان کی نشستوں پر لٹا دیا جنہیں اگلے کیبن میں عارضی بستر کی شکل میں تبدیل کردیا گیا تھا ان کے ساتھ میں ، ڈاکٹر مستری اور سسٹر ڈنہم بیٹھے تھے پائلٹ نے ہمیں خبردار کیا کہ کچھ وقفے کے بعد اسے طیارے کو سات ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنا ہو گا اور جوں ہی طیارہ بلوچستان کا پہاڑی علاقہ پار کرلے گا تو طیارہ کو پھر پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر لے آئے گا ۔آکسیجن سلنڈر اور گیس ماسک تیار تھے زیادہ بلندی پر مجھے ہی انہیں آکسیجن دینی تھی۔ہم جلد ہی فضا میں بلند ہو گئے طیارہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا قائد کو سانس لینے میں دقت محسوس ہوئی تو میں نے گیس ماسک ان کے منہ سے لگا دیا ۔کچھ دیر تک وہ آکسیجن لیتے رہے اور پھر کمزور ہاتھ سے ماسک کو ہٹا دیا اور مجھے یوں دیکھا گویا وہ کہہ رہے ہوں "سب کچھ بے کار ہے سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ میں نے ڈاکٹر مستری سے کہا کہ وہ ڈاکٹر الٰٕہی بخش کو بلا لائیں اور پھر مجھے یوں دیکھ کر اطمینان ہوا کہ ڈاکٹر الٰہی بخش انہیں آکسیجن لینے پر راضا مند کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اپنی تمام زندگی میں اس سے زیادہ پریشان کن سفر میں نے کبھی نہیں کیا ۔دو گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم سہ پہر سوا چار بجے ماری پور ائر پورٹ پر اترے یہ وہی ائر پورٹ تھا جہاں ایک سال قبل وہ نہائت پر اعتماد انداز میں اور اس امید کے ساتھ اترے تھے کہ وہ پاکستان کو عظیم قوم بنائیں گے اْس وقت ائر پورٹ ہزاروں افراد جن میں کابینہ کے وزراِ اور سفارتی مشنوں کے ارکان بھی شامل تھے ان کے لیے استقبال کے لیے موجود تھے لیکن اس دن جیسا کہ پہلے ہدائت کردی گئی تھی ہوائی اڈے پر کوئی نہ تھا۔جونہی ہم طیارے سے باہر آئےگورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کرنل جیفری ناولز نے ہمارا استقبال کیا قائد کو ایک سٹریچر پر لٹا کر ایک فوجی ایمبولینس میں لے جایا گیا یہ انہیں گورنر جنرلز ہاوس لے جانے کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھی میں اور سسٹر ڈنہم ان کے ساتھ ایمبولینس میں بیٹھے تھے ۔ایمبولینس بہت سست روی سے چل رہی تھی ہماری پارٹی کے دوسرے لوگ گاڑیوں سے روانہ ہو چکے تھے صرف ڈاکٹر مستری اور ملٹری سیکرٹری گورنر جنرل کی کیڈلک کار میں ہماری ایمبولینس کے پیچھے تھے۔ابھی ہم نے چار میل کا سفر ہی طے کیا تھا کہ ایمبولینس اس طرح ہچکیاں لیں جیسے اسے سانس لینے میں مشکل در پیش ہو رہی ہو اور پھر وہ اچانک رک گئی کوئی پانچ منٹ بعد میں ایمبولینس سے باہر آئی تو مجھے بتایا گیا کہ ایمبولینس کا پٹرول ختم ہو گیا اگرچہ ڈرائیور نے انجن سے الجھناشروع کردیا تھا لیکن انجن نے نہ سٹارٹ ہونا تھا نہ ہوئی میں پھر ایمبولینس میں داخل ہوئی تو قائد نے آہستہ سے ہاتھ کو حرکت دی اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا میں نے جھک کر آہستگی سے کہا "ایمبولینس کا انجن خراب ہو گیا ہے "۔انہوں نے آنکھیں بند کر لیں عمومإً کراچی میں تیز سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس سے درجہ حرارت قابل برداشت رہتا ہے اور گرم دن کی حدت سے نجات مل جاتی ہے لیکن اْس دن ہوا بالکل بند تھی اور گرمی نا قابل برداشت ۔قائد کی بے آرامی میں اضافہ کا سبب یہ تھا کہ بے شمار مکھیاں ان کےچہرے پر بھنبنا رہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت نہ رہی کہ مکھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے انہیں اٹھا بھی سکتے سسٹر ڈنہم اور میں باری باری انہیں پنکھا جھل رہے تھےہم منتظر رہے کہ شائد کوئی اور ایمبولینس آجائے ہر لمحہ کرب و اذیت کا ایک لامتناہی لمحہ تھا قائد کو ہم کیڈلک میں بھی منتقل نہیں کرسکتے تھے کہ وہ اتنی بڑی نہیں تھی کہ اس میں اسٹریچر سماسکے چناچہ امید و بیم کی کیفیت میں ہم انتظار کرتے رہے ۔۔۔قریب ہی مہاجرین کی سینکڑوں جھگیاں موجود تھیں مہاجرین اپنے روزمرہ کے کاموں مصروف تھے انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہان کا وہ قائد جس نے ان کو ایک وطن دیا ہے ان کے درمیان موجود ہے اور ایک ایسی ایمبولینس میں بے یار و مددگار پڑا ہے جس کا پٹرول بھی ختم ہو گیا ہے کاریں ہارن بجاتی قریب سے گزر رہی تھیں بسیں اور ٹرک اپنی منزلوں کی طرف رواں تھے اور ہم وہاں ایک ایسی ایمبولینس میں بے حس و حرکت پڑے تھے جو ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہ تھی ۔ اور اس بے حس و حرکت ایمبولینس میں ایک نہایت قیمتی زندگی آتی جاتی سانس کے ساتھ قطرہ قطرہ ختم ہورہی تھی ہم وہاں کوئی ایک گھنٹے منتظر رہے میری زندگی میں کوئی اور گھنٹہ اتنا طویل اور دردناک نہیں آیا تب خدا خدا کرکے ایک اور ایمبولینس آئی انہیں سٹریچر کے ذریعے نئی ایمبولینس مین منتقل کیا گیا اور یوں آخر کار ہم پھر گورنر جنرلز ہاوس کی طرف روانہ ہوئےگورنر جنرلز ہاوس میں انہیں آہستگی سے بستر پر لٹا دیا گیا تو میں نے گھڑی دیکھی ماری پور ائر پورٹ پر اترے ہوئے ہمیں دو گھنٹے ہو گئے تھے کتنی عجیب بات تھی دو گھنٹے میں ہم کوئٹہ سے کراچی پہنچے اور دو گھنٹے ہمیں ماری پور سے گورنر جنرلز ہاوس پہنچنے میں لگے۔ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا اور دبے الفاظ میں کہا" فضائی سفر کے لیے ہی ان کی حالت کیا کم خراب تھی کہ ایمبولینس کا یہ تکلیف دہ واقعہ بھی پیش آگیا۔ جلد ہی وہ گہری نیند سو گئے اور ڈاکٹر یہ کہتے ہوئے گورنر جنرلز ہاوس سے یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ وہ جلد ہی واپس آجا ئیں گے اب میں اپنے بھائی کے ساتھ بالکل تنہا تھی میرا بھائی بہت گہری نیند سو رہا تھا میرے ذہن میں گویا ایک وجدانی تصور ابھرا اور میں نے یہ محسوس کیا کہ یہ پر سکون نیند بجھنے والی شمع کی لو آخری تیز چمک ہے میں خاموش تھی اور خاموشی میں اپنے بھائی سے مخاطب تھی: "اوہ جن ؛ کاش ڈاکٹر میرا تمام خون نچوڑ کر تمھیں دے دیں تا کہ تم زندہ رہو ۔کاش خدا میری زندگی کے تمام برس لے کر تمہیں دے دے تا کہ تم ہماری قوم کی رہنمائی کرتے رہوتو میں خدا کی کتنی شکر گزارہوں گی " تقریباً دو گھنٹے کی پر سکون اور بے دخل نیند کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں،مجھے دیکھا سر اور آنکھوں کے اشارے سے مجھے قریب آنے کو کہا آخری مرتبہ کوشش کرکے زیر لب مجھ سے مخاطب ہوئے " فاطی خدا حافظ ۔ ۔ ۔ لا اِلٰہ ۔ ۔ ۔ ۔ الا اللہ محمد ۔ ۔ ۔ الرسول ۔ ۔ ۔ اللہ " پھر ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور آنکھیں بند ہو گئیں۔ اللہ اپنے اس عظیم ولی کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین

Thursday, June 25, 2015

آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی


آپریشن بیدار: ونگز اوور چاغی
==========================

سات جون 1981 میں بغداد کے جنوب میں موجود فرانس کے تعاون سے بننے والے عراقی نیوکلئیر ری ایکٹر سائٹ "تموز 1" پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کے بعد پاکستان کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اسرائیل کے اگلے ایڈونچر کا نشانہ پاکستان ہی ہو گا۔
کہوٹہ پر حملے کا منصوبہ عراقی ری ایکٹر پر حملے کے منصوبے کا ہی ایک حصہ تھا اور پلان کے مطابق اگر عراقی ری ایکٹر پر حملہ کامیاب رہتا تو اسرائیل پاکستانی ری ایکٹر پر بھی حملہ کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھاتا۔ عراقی تنصبات پر ہونے والا حملہ کامیاب رہا تو اسرائیل نے منصوبے کو حتمی شکل دینی شروع کر دی۔ حملے کے لیے اسرائیل کے پاس دو آپشنز تھے۔ پہلا یہ کہ اسرائیلی طیارے انڈیا میں آتے اور وہاں سے فیول لینے کے بعد اڑ کر پاکستان پر حملہ کرتے۔ دوسرا آپشن یہ تھا کہ اسرائیلی طیاروں کے ساتھ ہوا میں ہی ایندھن بھرنے والا طیارہ ساتھ آتا اور جہاں ایندھن ختم ہوتا وہاں اسرائیلی طیاروں کو ایندھن بھر دیتا۔ پلان کے مطابق حملے کے وقت اسرائیل کے اواکس طیارے کو پاکستانی کے ریڈار جام کرنا تھے تاکہ پاکستانی ائیرفورس ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی۔
اس دوران انڈیا نے اپنی طرف سے اسرائیل کو بہت منانے کی کوشش کی اسرائیل پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے لیکن اسرائیل کا اصرار تھا کہ ان کے طیارے پہلے انڈیا کے اڈے پر اتریں گے اور فیول لینے کے بعد حملہ کریں گے جبکہ انڈیا اس پر تیار نہیں تھا کیونکہ اس طرح انڈیا اس حملے میں حصے دار بن جاتا اور پاکستان کے ساتھ جنگ شروع ہو سکتی تھی۔
آسٹریلین انسٹیٹوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حملے کا منصوبہ بھارت کی وجہ سے 1982 میں مکمل نہ ہو سکا کیونکہ بھارت یہ تو ضرور چاہتا تھا کہ کہوٹہ تباہ کر دیا جائے لیکن وہ اس حملے کی ذمہ داری اور اس کے بعد پاکستان کے جوابی حملے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں تھا۔ جبکہ اسرائیل چاہتا تھا کہ اس حملے کا الزام اسرائیل اور انڈیا مل کر اٹھائیں۔ دوسری جانب امریکی صدر رونالڈ ریگن کی حکومت بھی ایسے کسی حملے کی مخالف تھی۔ کیونکہ تب پاکستان افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف لڑ رہا تھا اس دوران اگر پاکستان پر اسرائیلی حملہ ہو جاتا تو یقیناً پاکستان روس کو چھوڑ کر انڈیا اور اسرائیل سے الجھ پڑتا جس سے افغانستان میں روس کے قدم جم جاتے۔
اسرائیلی حملے کے منصوبے پر آخری مہر پاکستان کی حکومت نے تب لگا دی جب پاکستانی میراج طیاروں نے اسرائیل کی صحرائے نجف میں موجود دیمونہ نیوکلئیر تنصیبات تک پہنچ جانے کی ایک کامیاب کوشش کرتے ہوئے اسرائیل کو ایک واضح پیغام دیا جو کہ سفارتی ذرائع سے بھی اسرائیلی حکومت تک پہنچا دیا گیا کہ اگر کہوٹہ پر حملہ ہوا تو پاکستان اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات کو مٹی کا ڈھیر بنا دے گا۔
لیکن پاکستان کوئی چانس نہیں لے سکتا تھا اس لیے 1981 میں عراقی ایٹمی ری ایکٹر پر حملے کے بعد پاکستان کے صدر ضیا الحق نے پاکستان ائیرفورس کے ہیڈکوارٹرز کو اسرائیلی حملے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پلانز بنانے کی ہدائت کی۔ جس کے بعد پاکستان کے ائیر چیف نے ائیر ٹاسکنگ آرڈرز جاری کرتے ہوئے ائیرڈیفنس چیف کو کہوٹہ کی حفاظت کے لیے پلانز بنانے کا حکم جاری کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی دیمونہ ری ایکٹر پر حملے کا پلان بنانے کا بھی حکم دیا۔ جس کے بعد ائیر ہیڈکوارٹرز چکلالہ اسلام آباد میں ایک خاص آپریشنز روم بنا دیا گیا جس میں ائیرڈیفنس کی ساری صورتحال کو مانیٹر کیا جاتا تھا۔ 10 جولائی 1982 کو پاکستان ائیرفورس نے اسرائیل کی دیمونہ ایٹمی تنصیبات پر میراج طیاروں کی مدد سے حملے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور 1983 میں ایف 16 طیاروں کی آمد کے بعد انہیں بھی اس اسپیشل اسٹرائیک فورس میں شامل کر لیا گیا۔
اس سارے پس منظر میں 13 مئی 1998 کو انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو بہت سخت خدشہ تھا کہ اسرائیل اور انڈیا اپنے سابقہ پلان کے تحت پاکستانی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان ائیرفورس انتہائی زیادہ الرٹ حالت میں تھی۔ سفارتی سطح پر ٹینشن اس قدر زیادہ تھی کہ بلوچستان میں راس کوہ ٹیسٹ سائٹ پر اڑتے ہوئے ایک پاکستانی ایف 16 طیارے کو گہرے بادلوں کی وجہ سے زمینی دستوں نے اسرائیلی طیارہ سمجھ لیا اور اس سے پہلے کہ اس چیز کو پاکستان ائیرفورس کنفرم کرتی یہ خبر امریکہ میں پاکستانی سفیر تک پہنچ چکی تھی جس نے خفیہ طور پر اسرائیلی سفارت خانے کو انتہائی سخت پیغام بھیجا جس پر امریکہ میں اسرائیلی سفیر کو پبلک میں وضاحت کرنا پڑی کہ ہمارا پاکستان پر حملے کا کوئی پلان نہیں ہے۔
اسی دن اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر احمد کمال نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مصدقہ اطلاعات ہیں کہ بھارت اور اسرائیل پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی خواہش رکھتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کا جواب انتہائی سخت اور عالمی امن کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔
اس کے بعد جیسے ہی پاکستان نے اپنے جوابی ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پاکستان ائیرفورس کو چاغی کے ساتھ ساتھ کہوٹہ خوشاب فتح جنگ نیلور چشمہ اور کراچی کی ایٹمی تنصیبات کی فضائی نگرانی کی بھی اضافی ذمہ داری دے دی گئی۔

آپریشن بیدار 98:
پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے پاکستانی ہوائی حدود کی مسلسل نگرانی کو آپریشن بیدار کا نام دیا گیا۔ جس میں چاروں جانب نگرانی کے لیے چار سیکٹرز تشکیل دئیے گئے جنہیں اسلام آباد پشاور سرگودھا کوئٹہ اور کراچی سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
نمبر 6 سکواڈرن جو کہ سی 130 طیاروں سے لیس تھا جس کا کام سامان پہنچانا تھا اس نے اس مشن کے دوران 71 مختلف فلائٹس میں 12،66،615 پاؤنڈ سامان چاغی پہنچایا۔
نمبر 7 ٹیکٹیکل اٹیک سکواڈرن جو کہ میراج طیاروں سے لیس تھا اسے مسرور ائیر بیس کراچی سے شہباز ائیر بیس جیکب آباد بلوچستان منتقل کر دیا گیا تاکہ وہ چاغی کے ایریا میں چوبیس گھنٹے ائیر ڈیفنس ڈیوٹی دے سکے۔
نمبر 9 ملٹی رول سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے سرگودھا سے ہٹا کر سمنگلی ائیر بیس کوئٹہ بھیج دیا گیا تاکہ بلوچستان کے ایریا کو کوور کیا جا سکے اور رات کو ان علاقوں میں پہرہ دیا جا سکے۔

نمبر 11 سکواڈرن جو کہ ایف 16 طیاروں سے لیس تھا اسے 24 مئی کو سرگودھا سے ہٹا کر جیکب آباد بلوچستان بھیج دیا گیا۔
نمبر 14 سکواڈرن کے ایف 7 طیاروں کو چکلالہ ائیر بیس بھیج کر کہوٹہ کے علاقے کی حفاظت کا مشن دیا گیا۔
نمبر 17 سکواڈرن کے ایف 6 طیاروں کو پاکستان کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ ہوائی پہرے داری اور گشت لگانے کی ذمہ داری دی گئی۔
اسی کے ساتھ پاکستان ائیرفورس کے پاس موجود تمام ریڈار یونٹس کو اس طرح پھیلایا گیا کہ ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی دھماکوں کی ٹیسٹ سائٹ کے آس پاس ایک مکمل گھیرا بن گیا۔
اس سارے مشن کے دوران دالبندین ائیر پورٹ نے بہت شہرت حاصل کی جو کہ چاغی سائٹ سے صرف 30 کلو میٹر دور تھا اور تمام سامان اسی چھوٹے سے ائیرپورٹ پر اتارا جاتا تھا
پاکستان کا ایٹم بم مختلف حصوں کی شکل میں دو سی 130 طیاروں کے ذریعے دالبندین پہنچا تھا۔ ان سی 130 طیاروں کو پاکستانی حدود کے اندر بھی پاکستان کے ایف 16 طیاروں نے اپنے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائیلوں سے لیس تھے جبکہ اس دوران پاکستان انڈیا بارڈر کے ساتھ ساتھ ایف 7 طیارے میزائیلوں سے لیس چوبیس گھنٹے گشت لگاتے رہے تھے تاکہ کوئی بھی بیرونی طیارہ ہماری حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔
یہ مشن اس قدر سیکرٹ تھا کہ یہ تک سوچا گیا کہ اگر ایٹم بم لے جانے والا طیارہ اغوا ہو گیا تو کیا ہو گا۔ جس پر ایف 16 کے پائلٹوں کو ایک خفیہ آرڈر جاری کیا گیا کہ اگر ایٹم بم والا سی 130 ہائی جیک ہو جائے یا پاکستانی حدود سے باہر جانے کی کوشش کرے تو بنا کچھ سوچے اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیں۔ اور اس دوران ایف 16 طیاروں کے ریڈیو آف کروا دئیے گئے تاکہ مشن کے دوران انہیں کوئی بھی کسی بھی قسم کا حکم نہ دے سکے۔ پائلٹوں کو یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ ان کے آرڈرز فائنل ہیں۔ اگر مشن کے دوران انہیں ائیر چیف بھی آرڈرز بدلنے کا حکم دے تو اسے انکار کر دیں۔
جب 30 مئی 1998 کو پاکستان کے چھٹے ایٹمی دھماکے سے زمین کانپی تو آپریشن بیدار 98 بھی کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیئے پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اہم کردار ادا کیا جہاں ایک طرف انہوں نے سارا سازوسامان سائیٹ تک پہنچایا وہیں سرحدوں کی نگرانی میں بھی ہمہ وقت ،صروف رہے۔
ایسے تمام لوگوں کو آج مل کر سلام کرتے ہیں جن کی بدولت آج ہمارا دفاع ناقابلِ تسخیر ہے۔۔۔

Tuesday, July 22, 2014

پاکستان کے کوڑھی مریضوں کی جرمن مسیحا ڈاکٹر روتھ



یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔
پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔
سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘ کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘ یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘ یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘ ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘ زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘ کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘ انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ اس عظیم کاتون نے اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر روتھ کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘ یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘ اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘ ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘ ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘ یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘ جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میں جزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔ ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘ یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔
حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘ اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔ جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘ جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘ جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔ ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔ یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔


Thursday, May 29, 2014

ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں ان کاحال پو چھنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے


ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں ان کاحال پو چھنے کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ،ایک صحابی عمران بن حسین جو کہ قریش کے سردار تھے وہ بھی ساتھ تھے ،دروازے پر جاکر پوچھا کہ بیٹی اندر آؤں میرے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے ،تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں اتنا کپڑا نہیں کہ میں پردہ کرسکوں چادر کوئی نہیں چہرہ چھپانے کیلئے ،
ہمارے علم کے مطابق یہ کیسی بے بسی کی زندگی ہے ۔یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ کپڑا کوئی نہ ہو ،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیٹی جنت کی عورتوں کی سردار اور جنت کے سردار وں کی ماں ،اللہ کے شیر کی بیوی اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اس حال میں ہے کہ گھر میں چادر پردے کو نہیں ،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مرحمت فرما ئی کہ میری چادر سے پردہ کرلو ،آپ اندر تشریف لائے اور پو چھا بیٹی کیا حال ہے ،انہوں نے عرض کی اباجان بھوک بھی ہے اور بیماری کے علاج کے پیسے بھی نہیں ،
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گلے لگایا اور آپ بھی رونے لگے اللہ اکبر ۔طائف میں پتھر وں کی بارش میں رونا نہیں آیا اور یہاں رونا آیا، بیٹیوں کا غم کتنا رلادینے والا ہوتا ہے اے بیٹی غم نہ کر اس ذات کی قسم جس نے تیرے باپ کونبی بنایا ہے آج تیسرا دن ہے میں نے بھی ایک لقمہ تک نہیں کھایا تیرے گھر میں فاقہ تو تیرے باپ کے گھر میں بھی فاقہ ہے۔ (اللہ اکبر)
یہ اُس نبی اور اس کی بیٹی کے گھر کی حالت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فر مایا تھا :کہ اگر آپ چاہیں تو سارے عرب کے پہاڑ کو سونا بنا دوں ، عرب کے پہاڑ مکہ اورمدینہ کے پہاڑ سونا بن جائیں ۔پھر یہ سونا بنکر کھڑے نہیں رہیں گے بلکہ آپ کے ساتھ چلیں گے۔
آپ کو توڑنے کی اور کاٹنے کی مشقت میں نہیں ڈالوں گا جتنا فرما ئیں گے اتنا ہوکر سامنے آئیں گے ۔
اے بیٹی میں نے انکار کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا :پھر کیا چاہیے ؟میں نے عرض کیا :مجھے یہ چاہیے اجوع یوما واشبع یوما ایک دن بھو کا رہوں اور ایک دن کھانا کھا ئوں ،
اے اُمت کے غریبو !اگر تمہیں روٹی نہیں ملی تو تمہارے نبی کو بھی کئی کئی دن روٹی نہ ملی ، تمہارے بیٹے کے علاج کیلئے پیسے نہیں مل رہے تو تمہارے نبی کی سب سے محبوب بیٹی کی دواکیلئے بھی پیسے نہیں ملے تھے تمہارے بیٹوں کو پہننے کیلئے کپڑے نہیں مل رہے تو تمہارے نبی کی کی سب سے پیاری بیٹی کو بھی پردہ کرنے کیلئے کپڑے نہیں تھے ۔
اب یہاں ہماری عقل برباد ہوگئی اور ہم نے ان گا ڑیوں اور کو ٹھیوں کو عزت کا معیار بنالیا اگر یہی ہے تو پھر قارون سب سے بڑا عزت والاتھا ۔اس جیسا دولت والا شخص دنیا میں کوئی نہیں گزرا نہ آئندہ کوئی آے گا ۔اللہ نے خزانوں سمیت اس کوغرق کردیا ،
آپ نے فرمایا :میرے رب نے تو کہا تھا کہ یہ پہا ڑسونا بنادوں تو میں نے کہا نہیں مجھے جب بھوک لگے گی تو میرے اللہ تجھے یادکروں گا ،
تیرے سامنے آہ وزاری کروں گا اور جب کھا نا کھاوں گاتو تیراشکر ادا کروں گا اور تیری تعریف کروں گا-
واللہ تعالی اعلم